مسئلہ تنخواہوں میں اضافے کا نہیں،
بلکہ تنخواہوں کے نظام میں بے پناہ امتیاز اور تفریق کا ہے
۔۔کچھ سرکاری محکموں جیسے نیب،ایف بی آر،ایف آئی اے،وزیر اعظم سیکرٹریٹ،سینیٹ،قومی اسمبلی وغیرہ کے ملازمین عام سرکاری ملازمین کی نسبت سو/دو سو فیصد زیادہ تنخواہیں لے رہیں اور ان کی تنخواہیں بجٹ میں نہیں بلکہ ایگزیکٹو آرڈرز کے تحت بڑھا دی جاتی ہیں وہ بھی 2020 میں ہی
۔۔۔اگر ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر قربانی مقصود تھی تو ان مرiاعات یافتہ طبقات سے آغاز ہوتا اور اضافی الاؤسز میں کمی کی جاتی
۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔…
اور پاکستان میں وہ لوگ لیکچر دے رہے جن کو پتا بھی نہی کے تضادہے کیا ؟
ملازمین کی طرف سے تنقید اسلیئے کے دو مہینے پہلے سیکریٹیریٹ کے ملازمین کی۔100٪ تخواہیں بڑھائی گیئیں۔۔۔
تنقید اسلیئے کہ 4 مہینے پہلے وفاقی۔وزراء اور ان سب کی 200٪ تنخواہیں بڑھائیں گیئیں
تنقید اسلیئے کے 3 مہینے پہلے خان نے اسمبلی میں اپنی تنخواہ بڑھانے کی سفارش پیش کی کہ وزیراعظم کا 2 لاکھ میں گزارہ نہیں ۔۔
تنقید اسلیئے کہ چند مزید معزز ملازمین اور محکموں کی تنخواہیں بڑھائیں گیئیں پچھلے 6 ماہ کے دوران
تنقید اسلیئے کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں یکساں نہیں
تنقید اسلیئے کہ یہ سب جب ہوتا ہے تب گھر بار چلانا یاد آتا ہے کہ گزارہ نہیں اور جب بجٹ آتا ہے تو کہا جاتا ہے گورنمنٹ کے پاس بجٹ نہیں ۔۔
استادوں پہ ٹھپا ہے وہ کام نہیں کرتے 1122 پولیس ڈاکٹرز پیرا میڈیکل سٹاف بلدیہ سے لے کر باقی ملازمین کا کیا قصور۔۔۔
تھوڑا براڈ ہو کہ سوچا کریں۔
سوچیں کہ 470 روپے والے آٹے کا گٹو 970 کا ہو چکا اور ملازم کو کہا جا رہا صبر کا گھونٹ پیو۔۔۔
رونا اسلیئے تھا کہ صبر کا گھونٹ سب کیوں نہیں پیتے ۔۔
ٹیکس والوں سے ٹیکس بھی نا لو کیوں کہ وہ مافیا ہے۔۔۔
ملازم ٹیکس بھی دے اور صبر کا۔گھونٹ بھی پیئے۔۔
انصاف آپ سے سننا چاہتا ہوں
(محمد سلیمان ہاشمی)