514

کرونا لاک ڈاؤن میں تاخیر نے کرونا کو ایک ڈائن میں بدل ہے جو لوگوں کی زندگیاں چاٹنے لگی ہے۔ کیا یہ محض ایک فلُو ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے فرمایا تھا جب وہ ’اپنی‘ قوم سے کہہ رہے تھے کہ ’گھبرانا نہیں

ہم سے پوچھیں تو کرونا کے پھیلاؤ کے ذمہ دار ایف بی آر اور تاجر قیادت ہے کیونکہ ایف بی آر نے عید پر ریونیو اکٹھا کرنے اور تاجر قیادت نے دیہاڑی لگانے کے چکر میں پوری قوم کو کرونا میں مبتلا کردیا۔ مگر افسوس تو حکومت پر ہے جس نے ڈاکٹروں کی ایک نہ سنی اور نوکری ک زندگی پر ترجیح دینے کی رٹ لگادی، کیا آج اسد عمر کے علاوہ این سی او سی کا کوئی اور رکن آکر تسلیم کرے گا کہ یہ فیصلہ درست تھا، کیاڈاکٹر صاحبان اسے ایک صائب فیصلہ قرار دیں گے؟

ہمیں یاد ہے کہ صاحبانِ بصیرت نے خبردار کیا تھا کہ وباء کے پھیلاؤ کی صورت میں حکومت اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکے گی مگر کرائے کے ٹی وی اینکروں کی ایک تعداد ایسی تھی جو وزیر اعظم کو درست ثابت کرنے کے چکر میں سب کچھ بھول چکی تھی، آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ماہ رمضان سے ایک ہفتہ قبل ایف بی آر کے ترجمان حامد عتیق پریس کانفرنس منعقد کرکے بتا رہے تھے کہ اگر رمضان میں کاروباری سرگرمیاں بحال نہ کی گئیں تو ایف بی آر کے لئے ریونیو ٹارگٹ پورا کرنا ممکن نہ ہوگاتو دوسری جانب تاجر برادری کے ترجمان بشمول عتیق میر، جمیل پراچہ، نعیم میر اور سراج قاسم تیلی پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کرکے بتا رہے تھے کہ رمضان میں بازار ہر قیمت پر کھلیں گے، خواہ اس کے لئے تاجروں کو جیل بھرو تحریک ہی کیوں نہ شروع کرنا پڑی۔ چنانچہ اس ماحول میں حکومت خاموش بت بنی رہی اور عوام کی ذہن سازی ہوئی کہ کرونا کچھ نہیں ہے اس لئے جونہی بازار کھلے لوگ غول در غول بازاروں میں اتر آئے اور پھر وہی ہوا کہ آج پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بتا رہی ہیں کہ کرونا کے موجوہ کیسز وہی ہیں جو عید سے پہلے اور بعد میں ایک دوسرے سے میل جول کا نتیجہ ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اپنے ٹی وی انٹرویوز میں حکومت کی نااہلی کا اعتراف کرنے کے بجائے پاکستانیوں کو جاہل قرار دے رہی ہیں، ایسا کرکے وہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جیو ٹی وی کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شائد ہی کوئی قوم اتنی جاہل ہوگی جیسی ہم باتیں کرتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ آئین کا آرٹیکل 14 انسان کے وقار کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسے کسی بھی صورت میں ناقابل فسخ (Inviolable)قرار دیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اپنی حکومت کی نااہلی تسلیم کرتیں اور ایف بی آر اور تاجر برادری کے ترجمانوں کی تنگ سوچ کا تازیانہ پڑھتیں، انہوں نے سیدھا سیدھا پاکستانی قوم کو جاہل قراردے دیا۔ حالانکہ اسی قوم کے ایک حصے نے اپنی جانب سے اسے ووٹ دے کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کیا ہوا ہے۔

ٍریاست کو ماں سے تشبیہہ دی جاتی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ اس کے بچوں کے لئے کیا صحیح اور کیا غلط ہے، وہ بچوں کو آفت سے بچانے کے لئے سختی کرتی ہے، اسے پیار سے مناتی ہے اور اس کے لاڈ اٹھاتی ہے مگر اسے تباہی کے راستے پر نہیں پڑنے دیتی۔جس طرح ماں کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بچے کے لئے کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔ لیکن کیا کیا جائے جب ماں ہی تباہی کو تباہی نہ جانے اور کرونا وائرس جیسی وبا کو محض ایک فلُو کہہ کر اس کی تباہ کاریوں سے صرف نظر کرے۔ جب لوگوں نے حکومت کے کہے پر یقین کرلیا اور عید سے قبل اور بعد میں روٹین کی زندگی کی طرف لوٹ آئے تو آ ج انہیں جاہل بتایا جارہا ہے، حالانکہ یہ وہی قوم ہے جو کرونا کے کیسز سامنے آنے پر روزانہ رات کو چھتوں پر چڑھ کر اذان مغفرت دیا کرتی تھی۔

اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عوام کو بتائے کہ ان سے لاک ڈاؤن کھولنے کا غلط فیصلہ ہوگیا اور انسانی زندگیوں کو موت کے منہ میں جھونکنے پر ایف بی آر اور تاجر برادری کے ترجمانوں کے خلاف ضابطے کی کاروائی کا اعلان کرے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر حکومت اب بھی انکار کی کیفیت میں مبتلا رہے گی اور کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن تو کبھی سلیکٹڈ لاک ڈاؤن کی باتیں کرتی رہے گی تو نقصان میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں