کورونا مریضوں کے لئے تو وینٹی لیٹرز دستیاب نہیں، کیا معیشت کے لئے کوئی وینٹی لیٹر موجود ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار شرح نمو منفی ہو چکی ہے، مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف نے تو قومی اسمبلی میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بنک دونوں ایک ایجنڈے کے تحت قومی معیشت کی آخری رسومات ادا کرنے آئے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی داغ دیا کہ ان دونوں کے نام ای سی ایل پر ڈالے جائیں، گویا وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ عنقریب ان دونوں نے آخری رسومات ادا کر کے ملک سے بھاگ جانا ہے، اسی لئے انہیں روکنے کا بندوبست کیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ شیخ معیشت کی خرابی کا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالتے ہیں حالانکہ پچھلی حکومتوں میں تو وہ خود رہے ہیں اور اس وقت بھی معاشی تنزل کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دیتے تھے، جبکہ اس وقت بھی وہ کسی پچھلی حکومت کا حصہ ہی ہوتے تھے۔ ان کے پاس کوئی پالیسی تو ہوتی نہیں البتہ گھڑے گھڑائے فارمولے ضرور ہوتے ہیں، جنہیں وہ بوقت ضرورت آزماتے رہتے ہیں لوگ تو اس بات پر بھی حیران ہیں کہ عمران خان اپنی انتخابی تقریروں میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ ان کے پاس دو سو ماہرین اقتصادیات موجود ہیں، جو حکومت بنتے ہی ملک کو اوپر اٹھانے میں اپنا کردار ادا کرینگے، وہ اسد عمر کو بھی اپنا اقتصادی وکٹ پر اوپنر کھلاڑی بنا کر پیش کرتے تھے، مگر یہ اوپنر بھی بری طرح ناکام ہوا اور پھر دو سو ماہرین بھی عنقا ہو گئے کہ کمک کے طور پر حفیظ شیخ کو درآمد کرنا پڑا، جن کا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے تعلق بہت پرانا ہے اور ان کی ہر بات بغیر چوں چرا کے ماننے کا شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں ان دعوؤں کی حقیقت تو بعد میں کھلے گی کہ کورونا کے باوجود حکومت نے ایک شاندار بجٹ پیش کیا ہے جس میں کوئی نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا گیا، مگر اصل سوال یہ ہے کہ جوں جوں وقت آگے بڑھے گا اور کساد بازاری نیز خراب معاشی حالات کی وجہ سے حالات جب خراب ہوں گے تو حکومت کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تو پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ حکومت آنے والے دنوں میں مزید کئی ضمنی بجٹ پیش کرے گی، خود حفیظ شیخ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ بجٹ کوئی صحیفہ نہیں ہوتا کہ جس میں ترمیم نہ کی جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے چند ماہ میں آئی ایم ایف مزید دباؤ ڈال سکتا ہے اور بجلی، گیس کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی کوئی نئی قسط سامنے آ سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستانی معیشت بھی شدید دباؤ میں ہے۔ قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کے لئے اس بار بھی کئی ہزار ڈالرز کا قرضہ لینا پڑے گا، جبکہ پرانے قرضوں کی ادائیگی بھی ایک بڑا سر درد ہے۔ مگر اس کے باوجود ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آتا کہ جس سے یہ امید کی جا سکے کہ معیشت کی سمت بہتر ہو جائے گی۔ زراعت جو قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے، بجٹ میں کہیں نظر نہیں آتی، ساری مراعات صنعتی شعبے کو دی گئی ہیں یا پھر کنسٹرکشن سیکٹر کو نوازا گیا ہے، زرعی شعبے کی ترقی کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے، ظاہر ہے اس کے لئے کاشت کاروں کو آسان شرائط پر قرضے، ٹیکسوں میں چھوٹ اور سستی کھادیں بھی دی جانا ضروری ہیں، لیکن آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک نے کبھی بھی کسی حکومت پر یہ دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ اپنے زرعی شعبے کو اہمیت دے، حکومتیں بھی آنکھیں بند کر کے ان کی ہدایات پر عمل کرتی رہی ہیں۔
اس وقت حکومت کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں، ایک کورونا وباء پر کنٹرول اور دوسرا معیشت کی بحالی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں شعبوں میں حکومت تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔ بجٹ میں پہلے سے مراعات یافتہ طبقہ کو مزید مراعات دی گئی ہیں بعض سیکٹرز کو اربوں روپے کی سب سڈی بھی دی جا رہی ہے۔ حالانکہ ان کا عوام سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان میں بلواسطہ ٹیکسوں کی چھری ہمیشہ عوام کو ذبح کرتی ہے کیونکہ سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے ٹیکسوں کا بوجھ بھی وہی اٹھا رہی ہے جنرل سیلز ٹیکس ایک ایسا ہتھیار ہے جسے سرمایہ دارانہ نظام نے عوام پر ستم ڈھانے کے لئے ایجاد کیا ہے۔ اس ٹیکس کے تحت ایک غریب آدمی بھی اتنا ہی ٹیکس دیتا ہے، جتنا کوئی ارب پتی۔
اشیائے خورد و نوش پر جنرل سیلز ٹیکس بھی یکساں شرح سے ادا کرتے ہیں جو سرا سر نا انصافی ہے۔ اگر حکومت براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ اور جنرل سیلز ٹیکس میں کمی لائے تو عوام کو ایک بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔ مگر آئی ایم ایف کبھی اس کی اجازت نہیں دے گا اور نہ ہی حکومتی مشیروں میں اتنی سکت ہے کہ وہ معاشرے کے بالا دست طبقوں سے براہ راست ٹیکس وصول کر سکیں۔ عمران خان تو کہتے تھے کہ میں نے اقتدار میں آتے ہی غریبوں کو اوپر اٹھانا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس کے نظا م سے تو غریب کبھی اوپر نہیں اٹھ سکتے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہتھکنڈہ ہے، جس کا مقصد غریبوں کو چھپے ہوئے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر غربت سے اوپر نہیں اٹھنے دینا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب کورونا کی وجہ سے بے روزگاری بڑھے گی، غربت میں اضافہ ہو گا، عوام کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ تو جنرل سیلز ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ہدف کیسے پورا ہو سکے گا۔ اس کا تو الٹا اثر یہ ہو گا کہ عوام مہنگی اشیاء خریدنے سے محروم ہو جائیں گے اور حسرت و یا س کی تصویر بنے انہیں دور دور ہی سے دیکھ سکیں گے۔
اس بار وزیر اعظم عمران خان کے پاس یہ اچھا موقع تھا کہ کورونا کے باعث غیر معمولی حالات میں وہ انقلابی بجٹ کی ہدایت کرتے۔ ٹیکسوں کا نیٹ بڑھانے کی پالیسی پر زور دیتے اور ایسے طبقوں سے ٹیکس وصولی کا ہدف دیتے جو ٹیکس دینے کی استعداد رکھتے ہیں۔ صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ حکومت نے ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار میں ڈوبے ہوئے بجٹ کو ٹیکس فری کہنا ایک ظالمانہ اقدام ہے۔ نئے ٹیکس نہ لگانے کا کریڈٹ لینے والے یہ تو بتائیں کہ آخر نئے ٹیکس کی گنجائش ہے کہاں، عوام کو تو چاروں طرف سے ٹیکسوں میں جکڑ دیا گیا ہے اصل ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ٹیکسوں کے نظام میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ جب تک یہ سڑکچرل تبدیلی نہیں لائی جاتی یہ کہنا کہ غربت میں کمی آ جائے گی، ایک بے بنیاد مگر دل خوش کن دعویٰ ہے کسی ملک کی معیشت اس وقت مضبوط ہوتی ہے، جب اس کے عوام میں قوت خرید موجود ہو۔ پاکستانی عوام کی قوت خرید اب وینٹی لیٹر پر ہے۔ کورونا نے اسے مزید نازک حالت تک پہنچا دیا ہے۔ اب ایک طرف کورونا کے بے قابو ہونے کی دل دہلا دینے والی خبر یں سامنے آ رہی ہیں اور دوسری طرف عام آدمی کے معاشی حالات دگر گوں ہوتے جا رہے ہیں کیا موجودہ قومی قیادت میں اتنا دم خم اور بصیرت ہے کہ قوم کو اس منجدھار سے نکال کر کسی محفوظ کنارے تک پہنچا سکے۔