421

کامیاب اور مشہور ہونے سے مطمئن اور خوش ہونا زیادہ ضروری ہے۔

کامیاب اور مشہور ہونے سے مطمئن اور خوش ہونا زیادہ ضروری ہے۔

34 سالہ خوب رو جوان، جس کے پاس دولت، شہرت اور راحت و آرام کے تمام اسباب موجود تھے، لگاتار کامیابیوں کے بعد وہ خود کو خوش نصیب انسان سمجھ رہا تھا اور اس وقت بالی ووڈ میں عروج کی سیڑھی پر قدم رکھ کر ہیرو سے سپر ہیرو بننے جا رہا تھا کہ اچانک سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اور اس کے گھر سے اس کی مردہ لاش ملتی ہے۔۔۔
وجہ ؟
ڈیپریشن، مایوسی اور ناامیدی۔
ہم بات کر رہے ہیں سوشانت سنگھ راجپوت کی، جس نے ایک پُرتعیش زندگی کے باوجود آج خودکشی کرلی ل۔
دراصل ڈیپریشن اور تفکرات وہ بیماریاں ہیں جو آجکل حد سے زیادہ بڑھ رہی ہیں اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ وہ کامیاب ترین شخصیات کہ جنہیں زمانہ اپنا آئیڈیل مانتا ہے اور ان کی طرح طرزِ زندگی اپنانے کا خواہاں ہے لیکن۔۔۔
وہ شخصیات بھی اپنی زندگی میں شدید ڈیپریشن کی شکار ہیں۔
بہت سارے افراد ایسے ہیں جو زندگی میں نامور بن کر ایک بڑی کامیابی پا تو لیتے ہیں لیکن ان کی ذہنی صحت درست نہیں ہوتی۔
سوال یہ ہے کہ انسان پوری زندگی جس چیز کے پیچھے اپنی ساری توانائی لگا دیتا ہے تو پھر اس کے مل جانے کے بعد بھی وہ زندگی سے بیزار کیوں ہوجا تا ہے، حالانکہ اس کی زندگی تو سب سے زیادہ شاندار ہونی چاہیے ؟
دراصل اس کے بہت سارے عوامل ہیں :
ایک وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں ہوتا۔
دوسری وجہ مادیت پسندی میں رہتے رہتے، ان کا اللہ پاک پر ایمان اور بھروسا ختم ہوجاتا ہے۔
تیسری وجہ انہوں نے زندگی میں پیسہ تو بہت کما لیا ہوتا ہے لیکن اسٹریس مینجمنٹ، کرائسس مینجمنٹ اور زندگی کے مشکلا ت کا سامنا کیسے کرنا ہے، یہ نہیں سیکھا ہوتا،
نیز ان کو Well Being (خوش رہنے) کا تصور بھی نہیں معلوم ہوتا اور انہیں خوش اور پُرامن رہنا نہیں آتا۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے تعلقات اچھے نہیں ہوتے اور خراب رشتوں کی یہ فکر انہیں اس قدر مایوس کر دیتی ہے کہ وہ خودکشی کا بھاری قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
جدید ریسرچ کے مطابق دنیا میں ہر سال 8 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں، ہر 16 منٹ کے بعد ایک انسان خودکشی کررہا ہے، 17 سے 34 سال کے درمیان والے لوگوں میں مرنے کی وجوہات میں دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔
سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات بدھ کے روز ہوتے ہیں۔
اور خودکشی کی تین بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ :
“ذہنی صحت (Mental Health)”
ہے.
“ذہنی صحت” کی خرابی کی بڑی وجہ ڈیپریشن ہے، جس میں مبتلا شخص کو خودکشی کے خیالات زیادہ آتے رہتے ہیں.
بحیثیت ٹرینر اور ایڈوائزر پاکستان کے بے شمار اداروں میں میں نے اپنی خدمات دی ہیں.
میں نے کئی اداروں میں نے یہ تجویز دی ہے کہ ہمیں Mental Health اور Well Being، ان دونوں مضامین کو ٹریننگ میں لازمی شامل کرلینا چاہیے تاکہ اہم عہدوں پر اپنی خدمات دینے والے افسران ذہنی صحت کے اعتبار سے مکمل تندرست اور خوش ہوں۔
کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ انسان جب کئی طرح کی کامیابیاں حاصل کر لیتا ہے تو درمیانی عمر میں آکر وہ ذہنی پریشانیوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر وہ اپنی پریشانیوں پر کنٹرول اور انہیں منظم (Manage) کرنا نہ سیکھے تو اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔
ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیا میں خودکشی کا زیادہ رجحان میڈیا اورشوبز سے منسلک لوگوں میں ہوتا ہے، کیونکہ اس فیلڈ میں پیسہ اور گلیمر بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں میں کھوکھلا پن بھی زیادہ ہوتا ہے۔
اسی طرح بڑے بزنس مین، بیوروکریٹ اور کامیاب شخصیات میں بھی خودکشی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان لوگوں کا کوئی مخلص دوست نہیں ہوتا، یہ اپنی دِل کی بات کھل کر کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے۔
یہ لوگ زندگی میں کامیابیاں تو شاید بہت سمیٹ لیتے ہیں لیکن انہی کامیابیوں کی وجہ سے وہ معاشرے سے کٹ کر تنہائی اختیار کرلیتے ہیں، جبکہ Isolation اور تنہائی، ذہنی بیماری کو مزید تقویت دیتی ہے اور یہی چیز ان کی خودکشی کا سبب بنتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر گھر میں ایک نفسیاتی مریض موجود ہے اور ہر سات گھروں میں سے ایک گھر میں ایک ایسا مریض موجود ہے، جس کو باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کاونسلنگ اور رہنمائی دینے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے.
ڈیپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں سے آگاہی کے لیے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں “سائیکالوجی ونگ” موجود ہے جہاں سے نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے حوالے سے بے شمار ویڈیوز اور بلاگز سوشل میڈیا پر عوام کی آگاہی کے لیے شیئر کیے جاتے ہیں۔
معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس گھمبیر مسئلے کی بنیادی وجوہات پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دراصل ہمیں خوشی (Happiness) کے اصل تصور کا علم نہیں۔
ہم اپنی خوشی کو مادی چیزوں کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں، حالانکہ خوشی کا تعلق اطمینان اور سکون کے ساتھ ہوتا ہے اور جب بھی اس کو مادی چیزوں کے ساتھ جوڑا جائے گا، اس کا نتیجہ بھی بھیانک ہوگا۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اپنے اندر نعمتوں کی فراوانی کا احساس پیدا کرتے ہوئے ہر لمحہ اپنے رب کے شکر گزار ہوں اور زندگی جہاں ہے، جیسی ہے، اس کو انجوائے کرنا شروع کردیں تو یقیناً ان تمام خطرناک بیماریوں سے بچ سکتے ہیں، جو انسان کو موت کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں